Poetry

This page shows poetry written by me.

Two - liners

آمد اس جہاں میں تمہیں مبارک ہو
زندگی کی ہر خوشی تمہارے جیون میں مشارک ہو

paragraph-end

کوئی سخن روی کہے، کوئی گریہ و زاری تو کوئی نوحہ گری
تم بھی میرے حرف شعار میں تلاطم کا اندازہ لگاتے جاتے

paragraph-end

تم چاہیے ہو زندگی میں ہمیں ایسے
جیسے دشت میں پیاسے کو پانی

paragraph-end

رات بھر تیری یاد میں جو اشک بہاۓ جاتے ہیں
صحرا بھی اگر چن لے تو سمندر ہو جائے

paragraph-end

سبب بے خودی گردش ایام سے خو گر ہوا
اگر عقل رهبر بود، من می ماند جایی که من هستم

paragraph-end

رات تو بنائ گئی تھی آرائش گیسو کے لئے
میں نے فقط تیری یاد کے دیے جلائے ہیں

paragraph-end

تجھے ڈھونڈھتی ہیں نظریں مجھے اک جھلک دکھا جا
کہ ہم بھی ہیں تشنہ دیدار حسن یار کے

paragraph-end

اے غم زندگی جا، تجھ پہ بیشمار لعنت
یہ تیرے مارے لوگ اب عید بھی نہیں منا پاتے paragraph-end

باد صبا بتلاۓ مجھے کہ صنم بستے ہیں اب میرے شہر میں
ہاۓ افسوس، ہم کیوں آ گۓ پھر دیار غیر میں؟ paragraph-end

بےکراں بےکراں قوت متخیلہ
بےخواب بےخواب ہر رات paragraph-end

چلے آو نا تم مجھ کو کامل کر دو
کہ ہم اک زندگی تم پہ لٹا گئے paragraph-end

بےدلی نے بےمروت بنا دیا
ورنہ ہم بھی خوش خو ہوتے paragraph-end

دل ہو بحر بےکراں جیسے
غم جب ہو سمندر سے گہرا paragraph-end

تو میرے مزاج کی منظر کشی ایسے مت کر
پہلے مجھے سمجھا دے کہ کون ہوں میں paragraph-end

پھر سے دل میں ٹھیس اٹھی ہے پھر پاؤں ڈگمگا گے ہیں
چلو آو آج پھر اس دل مضطرب کا تماشا دیکھتے ہیں paragraph-end

گوہر عشرت ڈھونڈنے تو پردیس مت جا
جان لے کہ دنیا عشرت کدہ نہیں paragraph-end

رات بھر تیری یاد میں جو اشک بہاۓ جاتے ہیں
صحرا بھی اگر چن لے تو سمندر ہو جائے paragraph-end

بٹھکتے رہے ساری عمر، منزل نہ ملی
گویا مقصد حیات آوارگی تھا paragraph-end

تو میرے کندھے پر سر رکھ دے یا میں تیری گود میں سر
دو جہاں سے بےنیازی کے محض یہی دو راستے ہیں paragraph-end

ازیت، مصیبت، دھوکہ، ذلت اور پھر ماتم
کتنا دلکش ہے یہ میری زیست کا کل حاصل جاناں paragraph-end

میں نے کمرے سے تو ھر چیز اٹھا کر پھینک دی تھی پر
دل سے تیری یاد نکالی نہ جا سکی paragraph-end

چلے جاؤں میں اندیکھی منزلوں کی جانب
آخرکون مجھے یہ راہیں دکھاتا ہے؟ paragraph-end

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
زندگی بیچینی کا نام ہے کیا ؟ paragraph-end

نہ چھیڑ مجھے اے عشق کہ
یہ وحشت لیے ہم اب عدم پہنچ جائیں گے

paragraph-end

یعنی، گویا، گمان، شاہد، لیکن، مگر
اب تو ان شبدوں کے وبال سے نکال مجھے

paragraph-end

میری دنیا کو میکدہ بنایا ہے جو تم نے
اب ذرا بہک لینے بھی تو دو جاناں

paragraph-end

کب رند اور شیخ میں ملاقات ہو گئی؟
لوگ کہتے ہیں کہ یہ دو شخص بستے ہیں مجھ میں

paragraph-end

میری ذات کے صحرا کو مت چھیڑ اے ناصح
میں کہیں کھو جاتا ہوں جب اس میں طوفان اٹھتا ہے

paragraph-end

محو سفر ھوں میں تیرے شہر کی جانب
ہاں آج کی صبح خوش آئند ھو گی

paragraph-end

پوچھتے ہیں وہ شب و روز کا ہم سے
کوئ بتلاۓ کہ ہم بتلائیں کیا?

paragraph-end

تجھے پا کر بھی تشنہ لب کیوں رہیں؟
خدا قسم ہم سے یہ کفرانِ نعمت نہ ہو پاۓ گا

paragraph-end

سر پھوڑوں یا سینا چیر لوں
ترے فراق نے چھین لی ہے قوت فیصلہ مجھ سے

paragraph-end

تم بھی، میں بھی اور یہ زیست بھی فریب
ہے یہ گمان اب تو کہ گمان بھی فریب

paragraph-end

Ghazals

آفتاب ھے، آفتاب کی کرن ہے، شجر ہے اور آبشار بھی
بس اک تم نہیں زیست میں کہ بیتاب ھیں میرے خواب وخیال بھی
تیرے ساتھ کی چاہت ھے کہ پیاسے ھیں میرے لب اضطراب بھی
ان دھڑکنوں کو تم سمجھو کہ ان میں ھے اک آہوزار بھی
یہ تیری چاہت ھے یا قدرت کے اصول
کہ پاگل دیوانہ میں تیرا ہاں آج بھی آج بھی
نہ اس عشق کو جھٹلاؤ کہ میرا عشق ہے نایاب
کہ اک خلقت ترس رہی ہے پیار کو آج بھی آج بھی

paragraph-end

سیماب وار زیست کا کچھ تو حاصل ہو
اے نازنیں تم میری حسرتوں کا محاصل ہو
میری باہوں میں, میری آغوش میں آج تم مچل لو
اے پریوش کوئی نہیں جو آج تیرے مقابل ہو
خوابوں کو سجایا میں نے صرف تیرے لئے ہے
خود کو اس قابل میں نے بنایا صرف تیرے لئے ہے
قیس تھا، فرہاد تھا، رانجھا بھی مٹ چکا
آج اک نئی داستان کا آغاز صرف تیرے لیے ہے
آؤ خوشیوں سے ہم یہ آنگن بھر دیں
آج ایک دوسرے کو ہم کامل کر دیں
محبت، پیار، دیوانگی، بے تابی، عاشقی
یہ سب زندگی میں شامل کردیں

paragraph-end

نینوں نے تیری یاد میں بحر اشک بہا دیا ہے
ستم گر تیرے وار نے یہ پتھر دل تڑپا دیا ہے
اپنے دیوانے کو تم ساحل پر واپس لے آو جاناں
کہ جنوں عشق نے سمندر میں طوفان اٹھا دیا ہے
کل متاع دو جہاں ہے اب صنم صرف تو میرے لیے
اس یقین نےعمر تجھے کافر بنا دیا ہے

paragraph-end

وحشت دل کا کچھ تو علاج کیجئے
دشت تنہائی میں ہمسے ملا کیجئے
وہ تو خدا سے بھی بد زن ھو چکا
آپ اب بس اس کے لئیے دعا کیجئے
شہر چھوڑ کر دور اک کٹیا بنا لیں
بے درد زمانے میں اور کیا کیجئے
عمر وہ یاد آۓ اب کبھی بھی
دیوانگی میں سر جھٹک دیا کیجئے

paragraph-end

بہرِ خدا آج ذکر جاناں ہو جائے
ترک اداسی کا کوئی بہانہ ہو جائے
تو میرے لئے کیا ہے؟ کیا تمہید باندھوں
میخانے میں ساقی جیسے آپ پیمانہ ہو جائے
ڈھونڈتے ہیں جو دربدر سکوت کو
ایسے میں دل تو ویرانہ ہو جائے
تم سے پھر ملاقات ہو، پھر سے ہم بچھڑیں
یہ تو قیامت کی گھڑی دوہرانا ہو جائے
عشق نے نکما کیا، غم روزگار نے پریشان
ایسے میں ساقی پینا پلانا ہو جاۓ
سفر عشق کیونکر ھو سہل عمر
جاناں تیرا وصل جب جوئے شیر لانا ہوجائے

paragraph-end

دشت و بیاباں میں پھرنے کا تو میرا حوصلہ تو دیکھ
ہمسفر نہیں کوئی میرا پر تو اس سفر کا فاصلہ تو دیکھ
سفر کرنا عادت ہے میری، پر اس سفر میں صحرا تو دیکھ
بن رخت سفر ہی چل پڑا ہوں میں، اب تو میرے جوش عشق کا نظارہ تو دیکھ
ہے یہ سفر سراب تو سراب ہی سہی، پر تو میرے پاؤں کا چھالا تو دیکھ
میرے گرنے پہ ہنسنے والے، تو میرے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا پیالہ تو دیکھ
اس پیالے میں قوت خیال سے میں طوفان اٹھایا کرتا تھا
اب تو اسے میرے بحر اشک میں ڈوبتا ہوا تو دیکھ
ہے یہ زیست ایک حقیقت یا فقط خواب و خیال
اب تو مجھے بےخودی میں برباد ہوتا تو دیکھ

paragraph-end

سنو جاناں! میرے شبت روز تمہاری تلاش کرتے ہیں
سنو جاناں یہ بے تاب موسم مجھے برباد کرتے ہیں
رات کی تنہائی ہو یا دن کا ہو کرب
ایسے میں کہاں فرصت کے لمحات شاد کرتے ہیں
غم عشق میں میری آنکھیں دھندلا سی گئی ہیں اور
یہ پیاسے ہونٹ جاناں تجھے روز یاد کرتے ہیں
لوٹ آؤ نا تم پرستان سے جلدی
آؤ اس زمین پر گلستان آباد کرتے ہیں
کن خیالوں میں کھو گئے ہو تم عمر
کیا کبھی شاعر بھی گھر آباد کرتے ہیں

paragraph-end

زر کی محبت میں ہم خود سے بھی ہار گۓ
جتنے دن تھے جوانی کے سب خوار گۓ
پردیس میں پھرتے رہے ہم مارے مارے
جو والدین کے پاس رہے وہ اپنی آخرت تو سنوار گۓ
پردیس میں اگر کبھی تلخی حیات سے گھبرا جاؤ
پھر وہاں چلو جہاں شہر کے سارے میخوار گۓ

paragraph-end

خوابوں کے جہاں کو ڈھونڈوں میں آسماں سے
زمین کے باسی بیزار ہو گئے ہیں دوجہاں سے
وہ میرے پاس آیا تھا منتشر خیالات لیے، پر پھر
پیالے میں طوفان اٹھا دیا اس نے محض گماں سے
فرصت کے لمحات میں جسے وحشت ہوتی ہو
عمر ایسے فرصت جو کا کیا کام عمر رواں سے

paragraph-end

اے عشق تو مجھے یوں دربدر تو مت کر
کوئی دلاسہ دے کوئی سمبھالہ دے
ٹوکھریں کھا کر زمانے کی میخانے آیا ہوں
ساقی تو بہ عجلت مجھے شراب کا پیالہ دے
کون جیتا ہے یہاں کوئی کسی کے لیے عمر
تو آپنے خوابوں کو آج پھر سے بحالہ دے

paragraph-end

میکدے سے تشنہ لب آج ہم واپس آ گئے
بن پیے ہی ہمارے پاؤں تو لڑکھڑا گئے
یہ عادت تھی میری یا تھا گمان کا فریب
کشتی نے ہچکولا ہی کھایا تھا اور ہم گھبرا گئے
پھر سے ہمت باندھی پھر سے کیا سفر شروع
تیز ہوائیں جو ذرا چلیں ھم پھر کھٹکا گئے
چلو آؤ یاروں اس دل ناتوان کو تسلی دو
کہ طوفان جو کبھی آئے نہ تھے ہمیں دھڑکا گئے
دیکھا اس پری وش نے ایسی نظر سے
کہ ہم اپنے ہی خیالوں سے شرما گئے
چلے آو نا تم مجھ کو کامل کر دو
کہ ہم اک زندگی تم پہ لٹا گئے

paragraph-end

میں لوح جہاں ڈھونڈھ رہا ہوں
مجھے اپنا نشان مٹانا ہے
لوح جہاں سے کب کچھ مٹا
اس دیوانے دل کو سمجھانا ہے
تم صدیوں کے کھیل میں بس اک مہرہ ہو
راز ہستی کا محور کون؟ آج تمھیں بتلانا ہے
کسی کی باہوں میں سکوں ڈھونڈھ لو عمر
اگر اس دنیا میں تمھیں خوش رہنا ہے

paragraph-end

یوں غرق بحر زیاں ھوں گے اک دن
یہ گماں میں آ گیا تھا میرے، ڈوبنے سے پہلے
ہاں میں نے آہ پکار بہت کی تھی مگر
کسی نے سنی نہ تھی، ڈوبنے سے پہلے
وہ دیکھو سب آۓ ہیں میرے جنازے کو کندھا دینے
مگر دھتکار دیا تھا دنیا نے مجھے، ڈوبنے سے پہلے
دو جہان سے بیزار ھو گیا تھا اور تیری یاد بھی گئ
خدا نے بھی مجھے مجرم لکھا، ڈوبنے سے پہلے

paragraph-end

بے خودی کا یارانہ ہے اور دیوانگی ہمنشیں ہے
وار دوں دو جہاں میں کہ میرا محبوب ماہ جبین ہے
ہم وصل کے طالب تھے پھر منتظر ہی رہے
وہ اک ناز و ادا سے بولے کہ آپکا جرم سنگین ہے
سر تسلیم خم کیا ھم نے پس چھوڑ دیا انکا شہر
مدت ہوئی وہ گلی دیکھے مگر مقصود اب تمکین ہے
کل آیا تھا بلاوا انکا کہ آؤ سنا دو حال دل عمر
تب پہیلی بار احساس ہوا کہ زندگی حسین ہے

paragraph-end

سکون ربا کار زندگی میں
سکون ریز مسکراہٹ عنایت کیجیے
سکون ناآشنا اس دل کو
مائل بہ سکون کیجیے
نقطۂ سکون اب یہی ٹھرا کہ اپنی
سکون زار آغوش میں سر رکھنے دیجئے
جوپھربھی بےسکون رہے
تو ایک کام کیجئے
سکون پذیری کےواسطے اسے
دو گز زمیں دے دیجیے

paragraph-end

آؤ تمہیں میں لے جاؤں آج جھیل کنارے
لہروں کا شور ہو نیچے اور اوپر کتنے سارے تارے
جگنو، کوئل، سرد ہوا سبھی کر رہیں ہوں پیار کے اشارے
چلتے جائیں ہم وہاں اک دوسرے کے سہارے
میرے لیے تم نے کیے ہوں سنگھار پیارے
اور ایسے میں ہم اٹھائیں ناز تمہارے

paragraph-end

جاناں تجھ پر دو جہاں وار دوں
آرزو ہے کہ تجھے بہت پیار دوں
ڈھلتی شام میں سمندر کنارے چلتے ہوۓ
تیری الجھی زلف سنوار دوں
تم مانگ لو اگر تو
تن من دھن نثار دوں
تم کو اگر کوئ پریشانی آۓ
تو زمانے بھر کو للکار دوں

paragraph-end

غم عشق بری بلا ہے
اور کیا کہوں کہ شباب کیا ہے؟
صحرا میں خاک چھانتے عمر گزری
کیا کبھی ایسے بھی کوئی جیا ہے؟
اس کی صورت پہ ہم مر مٹے
خدایا کیا حسن تم نے اسے دیا ہے۔
ہم نظروں سے نظریں ملا بیٹھے تب
وہ بولے٫ کیا تو اس بستی میں نیا ہے؟
اس کے شہر سے آج نکال دیے گے ہم
ربا کیا یہی رسم دنیا ہے؟
مے پی لیجئے، مے پلا دیجئے عمر
زندگی میں ایک ہی کام تو ہم نے کیا ہے

paragraph-end

پھر سے چلا ہے دل عشق کے راستے پر
پھر سے چھائ ہے مدھوشی
پھر سے مجھے لگی ہے دنیا بیگانی
آج پھر سے شام ہو گئی ہے

paragraph-end

خوب تیری پزیرائ ہوئ اے عشق
خوب تو نے ہمیں شاد کیا
سوچ تو چھوتی ھے آسماں کو ہماری
شکستہ ھمت نے ھمیں برباد کیا
یہ سدا کی اداسی، یہ ہر بات پہ رونا
اسی فطرت نے تو ھمیں قدم قدم پہ خوار کیا
اک دل ہی رکھا تھا پہلو میں
لو آج ہم نے اسے بھی آزاد کیا

paragraph-end

واے بےخودی میں دو جہاں سے گزر گیا
یاروں مجھےپھر پلاؤ کہ میں سدھر گیا
سوز عشق میں جو مزہ ہے وہ اور کہاں
صنم کو وہاں پایا میں جدھر گیا
ڈھونڈ رہے ہو جو ان سنسان راہوں میں عمر
عہد طفل کا وہ سکون کدھر گیا ؟

paragraph-end

اک عمر کی بے قراریوں کا حاصل بس سراب ہے
میری بے تابیوں کا تماشا بھی تو جاناں لاجواب ہے
تم کو سوچتے تھے تم کو چاہتے تھے
اب تو تمہارے ساتھ کی چاہت بھی اک خواب ہے
ہائے یہ تشنگی، یہ ویرانی، یہ سناٹا اور یہ تنہائی
جاناں مجھے بتلاؤ کہ یہ کیسا شباب ہے؟
دشت دشت شہر شہر گھوم رہا ہوں میں
میری آوارگی کا بھی کیا کوئی حساب ہے؟
یوں مدہوش نہ گھر سے نکلا کیجیے
لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے
چلیۓ اب تو پردہ گرا دیجئے
درمیان اب کیوں حایل یہ حجاب ہے؟
عمر چیر ڈالیے سینا اور دل وا کیجیے
کہ آج محبت کا احتساب ہے

paragraph-end

ہائے یہ دسمبر کی راتیں اور دل کا اضطراب
ایسے میں غنیمت ہے دو گھونٹ شراب
تمہارے لبوں سے پیؤ یا پیالہ جام سے
واسطے مقصد حیات یا بیش کار ثواب

paragraph-end

آوارگی میں حد سے بڑھ جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھی تو گھر جانا چاہیے
گھر اگر نہ ہو تو کہاں جائیں ہم
صنم تیرے کوچے میں مر جائیں ہم
یہ دل کی خلش اور اضطراب کا فشار
کیسے یہ شب غم سہے جائیں ہم؟
یہ دھواں کیوں اٹھ رہا ہے سینے سے میرے
کاش راز ہستی کو سمجھ جائیں ہم
چھپا لو اپنے آنچل میں کہ ڈرے ہوۓ ہیں ہم
اپنے ہی ساۓ سے کیسے لڑ جائیں ہم؟
تم وفا کے طالب ہو عمر تو وہ بھی ہیں
صنم سے کیسے بے وفائی کر جائیں ہم

paragraph-end

حالت مدہوشی میں چلتا ہوں میں
لوگ سمجھتے ہیں کہ اتراتا ہے
دل کے زخموں میں پھر ٹھیس اٹھ رہی ہے
تیری یادوں کا ساون میرا غم بڑھاتا ہے
چلے جاؤں میں اندیکھی منزلوں کی جانب
آخرکون مجھے یہ راہیں دکھاتا ہے؟
حوصلے میرے ٹوٹ گے پر چلے جا رہا ہوں
جیسے بچہ کوئی چلتے ہوے لڑکھاتا ہے
ہاے یہ تیری ادا یہ تیرا ناز سے چلنا
تجھے دیکھ کے اک جنوں مجھ میں سماتا ہے
کیوں نہ اک نیا جہاں بسایں ہم عمر
کہ جہاں پیار کا چمن لہلاتا ہے

paragraph-end

نیند بھی نہیں آتی، چین بھی نہیں آتا
دل مضطرب میں کہاں یہ رسم و رواج ہے سماتا؟
خواب امید ہوئے پھر امید بھی گئی
اس جہان خراب میں کون ہے سکھ سے رہ پاتا؟
میکدے میں بیٹھا اس الجھن میں ہوں
آخرکیون کر نشا نہیں ہے چھاتا؟

paragraph-end

اشکوں سے میں نے ساگر بھر دیا اور شراب سے جام
وہی زیست کی ویرانی ہے وہی بیزار سی شام
انکے کوچے سے اب مت آٹھیو
کبھی تو وہ لیں گے میرا نام
جھلک دیکھنے تیری عدم سے بھیجا گیا مجھے
اس جہان خراب میں میرا اور ہے کیا کام؟
شب کمخواب ، جزبات عطشِ شدید اور تمنا بےتاب
کس ناز سے بھیجیں اب تجھے یہ پیغام

paragraph-end

آکاش میرا سایہ بان
زمین میرا بچھونا ہے
آنسو میرے ابر دریا بار
صحرا میرا کھلونا ہے

paragraph-end

روز اجر جاتی ہے دنیا میری
روز میں خود کو سنبھال لیتا ہوں
پنچھیوں چلے آو نہ ظلمت کدے میں میرے
کہ اب سے تمھیں ہی رازداں بنا لیتا ہوں
یہ کیسی وہشت ہے یہ کیسا سرور ہے عمر
کہ دیوانگی کو میں زندگی مان لیتا ہوں

paragraph-end

زندگی کی پھر وہی کہانی ہے
چار سو بس ویرانی ہے
سوچا تھا نیا سال آے گا
پر اس میں بھی ایذا رسانی ہے
تیرے ہوتے ہوے بھی ساقیا
کیوں اکشوں کی یہ روانی ہے
چلو آج اک ملاقات رکھو ساقی کہ
اک آب بیتی تمہیں سنانی ہے
کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ
بس چار دن کی جان فشانی ہے
محنت کر لو ان روز و شب
پھر اس کے بعد شادمانی ہے
غم عشق سنبھالوں یا غم روزگار کو
یہ الجھن تو لازمانی ہے
بلا کے جہاں میں طوفانوں کو سونپ دیا
اے خدا کیا یہی تیری میزبانی ہے
اک آیشانہ ہی فقط مانگ لوں میں
سنا ہے جہاں میں نعمتوں کی فروانی ہے
سوچتا رہتے ہو اداسی کا کارن جو عمر
ندا آی ہے کہیں سے کے خدا کی نافرمانی ہے paragraph-end

اس ظلمت شب کی صبح کب ہوگی؟
دشت تنہائی میں ملن کی فضا کب ہوگی؟
دیکھو وہ غم جاناں میں حواس کھو بیٹھا ہے
اس سے بڑھ کہ تکمیل عشق اور کیا ہو گئ
اہل خرد تھا کبھی یہ بنوں میں پھرتا مارا مارا
اب اس سے بڑھ کر دیوانگی اور کیا ہوگی

paragraph-end

آج تم سے کچھ کہنا ہے
غم جدائی اب نہیں سہنا ہے
تم آ جاؤ ہمیں جینا سکھا دو
کہ اب اک پل بھی نہیں چینا ہے
تمہیں آج یہ پیام دینا ہے
ڈھلتی شام میں تیرے ہمراہ چلناہے

paragraph-end

کتنا درد ہے کیا بتاؤں تجھ کو
اے دل یہ کیسے خیال آتے ہیں مجھ کو
چاۓ کی پیالی میں طوفان اٹھا رہا ہوں میں
یا الہی یہ کیا ہو گیا میری سمجھ کو
تنہای کے مارے ہو تم اے دل اور پوچھتے ہو کہ
یہ غالب و جون کی ادا کیسے آی مجھ کو

paragraph-end

ان لبوں کی تشنگی کو سیراب کرنے آ جاؤ
چمن میں بہار آئ ھے ہمیں خوشاد کرنے آ جاؤ
کب تلک جئیں گے تیری یادوں کے سہارے
قرار ایک پل نہیں ہے تم ہمیں پیار کرنے آجاؤ

paragraph-end

English

paragraph-end

neuroticism is a devil
I don’t like him
He is the one who actually
Painted The scream
Edvard Munch was just the tool
The devil possess Edvard
and painted The scream
But Edvard originally wanted to paint
A butterfly sitting on a flower
Oh neuroticism you ruined
Edvard’s beautiful endeavour

paragraph-end

The sky is my shelter
The Earth is my bed
My tears can fill oceans
The desert is my playfield

paragraph-end